کبھی روگ نہ لگانا پیار کا بقلم ملیحہ چودھری
السلام وعلیکم
کبھی روگ نہ لگانا پیار کا
بقلم
ملیحہ چودھری

قسط 1
•••••••••••••••••••••••••••••
کیا محبّت اتنی آسانی سے مل جاتی ہیں؟
"یہ پھر آنکھوں دیکھا سب جھوٹ ہوتا ہے۔۔۔
نہیں!
میرا دل نہیں مانتا۔۔۔
کی محبت اتنی آسانی سے مل جاتی ہے۔۔۔۔
کیونکہ محبّت تو وہ احساس ہے۔۔۔۔
جو ہر قدم پر قربانی مانگتا ہے ۔۔۔۔
محبّت کا و ہر لمحہ جو ہمیں خوشی کی طرف لے جاتا ہے۔۔
ہمیں ایسا لگتا ہے۔۔۔۔
جیسے ہم ہوائوں میں اُڑ رہے ہو"
محبوب کا ساتھ ایک الگ ہی دنیا میں لے جاتا ہے۔۔ اس جہاں کی دھوکے بازی کی بے رنگ دنیا بھی رنگین لگنے لگتی ہیں۔۔۔۔۔۔
" ایسا لگتا ہیں ۔۔۔۔
جیسے محبوب کے وجود کے ساتھ سے ساری دنیا ہم سے محبّت کرنے لگی ہو۔۔۔۔۔۔
محبّت تو وہ احساس ع امرت ہے!!!
جو ایک بار روح میں گھل جائے تو روح اُسکی اور خواہش کرنے لگتی ہے۔۔۔۔۔۔
ہاں!!!!!
یہ الگ بات ہے ۔۔۔۔
کہ اللہ کسی کی قسمت اتنی مہربان کر دیتا ہے ۔۔۔۔
کہ اسے محبّت میں قربانی نہیں دینی پڑتی۔۔۔۔۔۔
" لیکن قسمت ہر کسی پر بھی مہربان نہیں ہوتی ۔۔۔۔۔
"اللہ اگر چاہے دے کر لے بھی سکتا ہے۔۔۔۔
اور لے کر ازما بھی سکتا ہے۔۔۔۔۔
"اللہ اپنے نیک بندوں کو زیادہ تر محبّت میں آزمائش لیتا ہے۔۔۔
وہ کالی سیاہ رات میں لکھنے میں ایسے مگن تھی۔۔۔۔
کہ اگر اُسنے پلک بھی جھپکائی تو اُسکے خواب ٹوٹ کر چکنا کو ہو جائینگے۔۔۔۔
ابھی وہ لکھ ہی رہی تھی۔۔۔۔
جب بہت تیز بجلی کے کڑکنے کی آواز سنائی دی ۔۔۔۔
اُسنے نگاہ اُٹھاکر دیکھا۔۔۔۔
آسمان میں گھنے سیاہ بادل تیز طوفانی بارش اور بارش بھی ایسی کہ ابھی یہ بارش اس حویلی کو اپنے ساتھ بہا کر لے جائیگی۔۔۔
تبھی اُسّے تائی امی کی آواز سنائی دی۔۔۔۔۔
" یا اللہ خیریت ٫تائی امی جو رات کے تین بجے ایسے چلا رہی ہے۔۔۔۔۔۔
وہ اپنی قلم ڈائری میں پھیکنے کے سے انداز میں رکھتی ہوئی نیچے کی طرف دوڑ لگادی ۔۔۔۔۔
وہ ابھی سیڑھیوں پر جاتی کہ اُسکی ٹکّر اتنی جور سے ہوئی۔۔۔۔۔
مانو ٹکّر نہ ہوکر بڑا سا پتھّر سر پر آ کر لگا ہو۔۔۔۔
وہ چیخنے والی ہی تھی۔۔۔۔۔۔
جب کسی نے جلدی سے اُسکے لبوں پر ہاتھ رکھ کر اُسکی چیخ کا گلا گھوٹا۔۔۔
اُسنے جو ٹکّر لگنے کی وجہ سے آنکھیں بند کی ہوئی تھی۔۔۔۔۔
اپنے لبوں پر کسی کے ہاتھوں کا لمس محسوس کرتے ہوئے ۔۔۔۔۔
اپنی آنکھیں جلدی سے کھولی جب تک سامنے والے نے اپنا ہاتھ اُسکے لبوں سے ہٹا لیا تھا۔۔۔
آپ۔۔۔۔۔۔۔
*******************
اتنی تیز طوفانی بارش!!!!
"اب گھر کیسے جایا جائے گا،ایسی بارش میں تو کار بھی خراب ہو سکتی ہے۔۔"وہ ابھی سوچ ہی رہا تھا۔۔۔جب پیچھے سے پُکار" MS سر !!، اُسنے پیچھے مڑ کر دیکھا ۔۔
"یس!
"سر !!!!!!،اُسکی سیکرٹری یاسمین بولی "سر آپ کا ڈرائیور باہر ویٹ کر رہا ہے... "اوک! آپ اُنسے بولیں کہ میں فائیو منٹ میں آ رہا ہوں۔۔
" اوک سر!!
یاسمین وہاں سے چلی گئی وہ اپنے میکپ روم سے موبائل لینے چلا گیا۔۔۔۔۔۔۔
جب وہ میکپ روم میں گیا تو اُسکے موبائل کی رنگ ٹون کی آواز آ رہی تھی۔۔۔۔۔ اُسنے موبائل اٹھاکر دیکھا تو ٹوئنٹی مسڈ کال گھر سے تھی۔۔۔ ایک بار پھر اُسکا موبائل وائبرت ہوا اُسنے یس کا بٹن پریس کیا۔۔۔۔۔ "یس موم! ، دوسری طرف اُسکی موم تھی, "بیٹا آپ کب آ رہے ہو گھر پر تین بج گئے ہے آپ ابھی تک گھر نہیں آئے.....؟؟
" موم بیٹا آپ تھیک تو ہے مجھے آپ کی بہت چنتا ہوں رہی ہے۔۔۔۔۔۔ "عائشہ بیگم اپنے بیٹے کی چنتا میں ایک ہی سانس میں بولی چلی جا رہی تھی۔۔۔۔ MS بولا "موم ریلیکس آپ چنتا مت کیجئے میں ابھی کچھ ہی دیر میں آپکے سامنے موجود ہونگا۔
" بیٹا چنتا کیسے نہ کروں ایک تو آج کا موسم بھی تھیک نہیں ہے ۔۔۔۔ "موم یہ سب اللہ کی طرف سے ہے "اوک ٹھیک ہے میں بس ففتین منٹ میں آ رہا ہوں اپنا خیال رکھنا ۔۔۔۔"اللہ حافظ، یہ بول کر اُسنے کال ڈسکنکٹ کر دی اور اپنی کار کی طرف چل دیا جہاں پر اُسکا ڈرائیور ویٹ کر رہا ہے۔۔۔۔۔
******************
"آپ !!!
وہ ابھی بول بھی نہ پائی تھی جب پیچھے سے تائی امی چلاتی ہوئی آئی۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"ارے منہوس ماری تُجھے میرا ہی بیٹا ملا تھا اپنی ادائے دکھانے کو، ایک تو مہارانی وکٹورین کی طرح تُجھے اٹھانے آؤ۔۔۔ اور پھر تیرے نخرے بھی دیکھو، تُجھے سمجھ نہیں آتی کی باہر بارش ہو رہی ہے۔۔۔۔۔
" چھت سے کپڑے بھی اتار لو ، پر نہیں تُجھے سمجھ بھی کیسے آئیگی" تُو جو ٹھہری مہارانی وکٹورین """""
مہارانی کے کہاں مزاج ملتے ہیں بھئی ،مہارانی کے تو آرڈر چلتے ہیں۔۔
اور اوپر سے اپنی اداؤں سے میرے بیٹے ک پھنسانے کی کوشش کر رہی ہے ۔۔۔۔
تائی امی نفرت بھرے غصے سے بولی۔۔
"یہ کیا بول رہی ہے امی آپ ؟
شہزین یہ سن کر بولا "نہیں امی!
"کیا نہیں امی ، تو چپ کر مجھے پتہ ہے بیٹا یہ تُجھے پھنسانے کی کوشش کر رہی ہے ،جا بیٹا تو ریسٹ کر میں اسکو دیکھتی ہوں' یہ بول کر تائی امی اُسکی چوٹی پکڑ کر کھینچتی ہوئی لے جا رہی تھی ۔۔۔۔
جیسے ہی تائی امی نے اسکو ِ ریلنگ کی طرف دھکّا دیا مائشا ریلنگ سے ٹکراکر سیڑھیوں سے گرتی ہوئی ڈرائنگ روم میں جا گری۔۔۔۔۔۔
"اللہ............!
مائشا کی چیخ پوری حویلی میں گونجنے لگی، مائشا کی چیخ کو سنکر سب اپنے اپنے کمروں سے باہر نکلے ۔۔۔۔۔۔۔۔
شہزین جو اپنے کمرے کی طرف جا رہا تھا مائشا کی چیخ کو سنکر دوڑتا ہوا جینے پر پہنچا۔۔۔۔۔
دادو جو ابھی تہجّد پڈھ کر لیٹی تھی, وہ بھی مایو کی چیخ سنکر اپنی چھڑی کو پکڑتی ہوئی باہر آئی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"یا اللہ خیر! اتنی رات کو کیا تماشہ کھڑا کر دیا۔۔۔۔۔۔ دادو پریشان سی ہوکر خود سے بڑبڑاتے ہوئے اپنے خواب گاہ سے باہر نکلی۔۔۔۔۔۔
"کیا ہوا شہزین بیٹا؟
دادو جو شہزین کو دیکھ کر حیرت سے پوچھنے والی تھی۔۔۔۔۔
انکی نگاہ سیڑھیوں پر مائشا کے نڈھال وجود پر گئی۔۔۔۔۔
دادو نے زور سے چیخ ماری
"مائشا آ آ آ آ آ آ آ آ.........
اور دوڑتی ہوئی مائشا کے پاس گئی،
"مایو آٹھ بیٹا کیا ہوا ہے تُجھے دادو روتی ہوئی بولی؟😭😭
"مایو آٹھ بیٹا, دیکھ تیری دادو تُجھے آواز لگا رہی ہے۔۔۔۔۔۔
دادو زارو قطار رونے لگی۔۔۔۔۔
" کوئی تو میری بچی کو اٹھاو۔۔۔۔
ملک بیٹا دیکھ نہ مایو کو کیا ہوا ہے ؟
بیٹا دیکھ کتنا خون بہ رہا ہے میری بچی کا ؟
شہزین جو صورتحال کو سمجھنے کی کوشش کر رہا تھا۔۔۔۔۔۔۔
دادو کے پکارنے پر دوڑتا ہوا مایو کی طرف لپکا، مایو آنکھیں مت بند کرنا میں ابھی تمہیں ہسپتال لے جا رہا ہوں۔۔۔
شاہزیب جلدی سے گاڑی نکالوں ۔۔۔۔
شہزین مایشا کو اٹھاتے ہوئے بولا۔۔۔
شہزین دادو کی طرف دیکھ کر بولا" دادو آپ فکر مت کریئے کچھ نہیں ہوگا مایو کو میں ابھی اسکو ہسپتال لے جا رہا ہوں ۔۔۔۔۔۔
ملک صاحب جو کہ شہزین کے بابا تھے وہ بولے" بیٹا میں بھی چل رہا ہوں تمہارے ساتھ،چلو بیٹا ملک صاحب ایک نظر صائمہ بیگم (مائشا کی تائی امی) کی طرف دیکھ کے چل دیئے۔۔۔۔۔
ابھی شہزین مائشا کو اپنی باہوں میں اٹھائے گیٹ کی طرف جا رہا تھا۔۔۔۔۔۔
جب دادو نے پیچھے سے آواز دی۔
"شہزین ن ن ن ن..... !!"بیٹا میں بھی چلوں گی دادو بولی ۔۔۔
"نہیں دادو آپکی طبیعت پہلے سے خراب ہے مجید اور بگڑ جائیگی
"نہیں بیٹا !
"امّاں شہزین صحیح بول رہا ہے۔۔
آپ یہیں رہ کر مایو کے لیے دعا کریں۔۔۔۔۔۔
ملک صاحب رکسانہ بیگم ( امّاں) کو بولتے ہوئے شہزین سے بولے "چلو بیٹا۔۔۔۔۔
"جی بابا !!
***********************
شاہزیب نے ریش ڈرائیونگ کے ساتھ گاڑی SJH( سرجن جہانگیر ہسپتال) میں روکی۔۔۔۔
اور جلدی سے کار سے نیچے اترا شہزین نے مایو کو باہوں میں اٹھایا ہسپتال کے اندر جاکر چلانے لگا۔۔۔ "ایمرجنسی ی ی ی ی ی.........
پلیز ز ز ز ز ز..............
"بھائی ریلیکس !!ایک منٹ بھائی
شاہزیب کا ایک دوست جو اس ہسپتال کا ڈاکٹر بھی تھا اور فیوچر اؤنر بھی ۔۔
آج اُسکی نائٹ ڈیوٹی تھی شاہزیب پاکٹ سے موبائل نکلتے ہووے بولا "بھائی ریلیکس !!!
"میں ابھی سرفان کو کال کرتا ہوں شاید اُسکی نائٹ ڈیوٹی ہو۔۔۔
سرفاں جو ابھی کسی مریض کو دیکھ کر اپنے روم میں جا رہا تھا شور سن کر نیچے چلا آیا ۔۔۔۔
اور شاہزیب کو دیکھ کر بولا۔
"شاہو...؟؟
شاہزیب نے اپنے نام کی پکار سنتے ہی پیچھے مڑ کر دیکھا ۔۔
"شاہو تم م م م.....؟؟
تم یہاں کیا کر رہے ہو؟
سرفان شاہزیب کو دیکھ کر بولا۔
شاہزیب سرفان کو دیکھ کر بولا "اچّھا ہوا تم یہیں پر ہو ،میں تو تمہیں ہی کال کرنے والا تھا۔۔
کیوں؟
"سب ٹھیک تو ہے۔؟؟
"نہیں یار کچھ بھی ٹھیک نہیں ہے۔۔۔!!
کیوں کیا ہوا؟
"وہ ایکچلّی میری کزن سیڑھیوں سے گر گئی ہے۔۔
سرفان بولا ۔۔
"کہاں ہے؟
وہ آپریشن روم میں۔
اوک!
میں ابھی دیکھتا ہوں ۔۔۔
ڈاکٹڑ سرفاں یہ بول کر آپریشن روم میں چلے گئے۔۔۔ ابھی کچھ ہی دیر گزری تھی کہ دادو کی کال انے لگی ۔۔
شہزین نے شاہزیب سے پوچھا" کس کی کال ہے۔۔۔؟ "بھائی!!!
"وہ ؟؟؟ شاہزیب موبائل کو دیکھتے ہوئے بولا۔۔۔۔
" دادو کی کال ہے۔۔۔۔۔
میں ابھی کال سُن کر آتا ہوں۔۔۔۔۔۔
**********************
وہ اپنی کار میں بیٹھا کسی سوچ میں گم تھا۔۔۔۔ جب اچانک ایکدم جھٹکے سے کار رکی ۔۔۔۔۔۔
اُسکا سر آگے کی سیٹ سے لگتے ہووے بچا۔۔۔۔۔۔۔
وہ چلاتے ہوئے بولا ۔۔۔۔۔۔۔۔
"بلال ل ل ل ل........
یہ کیا کر رہے ہو ۔؟
"دیکھ کر نہیں چلائی جاتی۔۔۔۔۔۔۔
بلال ڈرتے ہوئے بولا۔۔۔۔۔۔۔
"س سر آگے کوئی گاڑی ہے۔۔۔۔
اوک !!!!
دیکھ کر چلاو۔۔۔
منہال اپنے غصے کو کنٹرول کرتے ہوئے بولا۔۔۔۔
"اوک سر !!!!
ایک بار پھر وہ کسی گہری سوچ میں ڈوب گیا تھا۔۔۔۔جب کار گھر کے سامنے رکی۔۔۔۔
تو بلال بولا۔۔۔۔۔
"س سر گھر آگیا ہے۔۔
اوک!
" تم گاڑی لوک کرکے کھانا کھا کر چلے جانا MS ڈرائیور سے بولا ۔۔۔
"جی صاحب!!
ڈرائیور ڈرتے ہوئے بولا۔۔
منہال نے ڈرائیور سے بول کراندر کی طرف قدم بڑھا دیے۔۔۔۔۔۔
وہ ایسا ہی تھا۔۔۔۔۔
پل میں غصّہ کرنے والا پل میں سب سے محبّت کرنے والا۔۔۔
جب اسے غصّہ آتا۔۔۔
پھر وہ کسی کی بھی نہیں سنتا۔۔۔۔۔
صرف ایک شخص کے علاوہ اور وہ تھی۔۔۔۔۔
اُسکی جان سے پیاری کزن جیسی بہن مدیحہ۔۔۔
منہال مدیحہ سے بہت محبّت کرتا تھا ۔۔۔۔۔
اتنی محبّت کی شاید کوئی اپنی سگی بہن سے بھی محبّت نہیں کرتا ہو !
اور اگر وہ کسی سے محبّت کرتا۔۔۔۔۔
تو اپنے جان بھی اُسکے خاطر قربان کر دیتا۔۔۔
وہ سلمان شاہ اور عائشہ سلمان شاہ کا اکلوتا جان سے پیارا بیٹا چھ فٹ سات انچ لمبا قد ،چوڑی چھاتی،گول چہرا پتلی کھڑی ناک آنکھیں ایسی کہ
جسکی بھی طرف وہ نظر اٹھا کر دیکھتا تو اسکو اپنی نظروں کے حصار میں زکڑ لیتا ۔۔۔۔
منہال سلمان شاہ نیلی آنکھوں والامغرور شہزادہ۔۔۔۔۔۔
اُسکے پیچھے لڑکیاں تو لڑکیاں بلکہ لڑکے بھی اُسکی پرسنالٹی پر رشک کرتے تھے۔۔۔
منہال سلمان شاہ جسے سب(MS)کے نام سے جانتے تھے۔
سب اُسکی خوبصورتی کے آسیر تھے ۔۔۔۔۔۔
وہ تھا ہی اتنا خوبصورت ۔۔۔۔۔۔
جہاں پر سے وہ گزرتا سب کا دل اپنی مٹھی میں لیکر گزرتا۔۔
اور سب سے زیادہ منہال کی خوبصورتی اُسکے روب اُسکی اکڑ اور اُسکے سنجیدہ مزاج سے چھلکتی تھی۔۔۔۔۔۔
مسز سلمان شاہ تو اس پر گھر سے نکلنے سے پہلے ہمیشہ آیاتُل قرشِ اُس پر پھونک کر بھیجتی تھی۔۔۔ بچپن میں جب وہ چھوٹا تھا۔۔۔۔
تب اُسکی آنکھوں کو سب سے زیادہ نظر لگتی تھی ۔۔ ۔۔۔۔
اور منہال کافی کافی دونوں تک بیمار رہتا تھا ۔۔۔۔
سلمان شاہ اور عائشہ سلمان شاہ کی اپنے دونوں بچوں میں گویا جان بستی تھی۔۔۔۔
منہال نے جب ڈرائنگ روم میں قدم رکھا۔۔۔۔۔
تو سامنے اُسکی ماما(عائشہ بیگم) اُسکا انتظار کرتی کرتی وہیں صوفے پر سو گئی تھی۔۔
جب منہال اپنی ماما تک گیا تب تک عائشہ بیگم آٹھ چکی تھی۔۔۔۔
شاید منہال کے آواز کرنے سے انکی نیند ڈسٹرب ہوئی تھی۔۔۔۔۔۔۔
"السلام وعلیکم ماما!!!
"وعلیکم السلام ماما کی جان!!
عائشہ بیگم منہال کی سلام کا جواب دیتی ہوئی بولی۔۔۔
"بیٹا اپنے اتنی دیر کیوں لگادی؟
عائشہ بیگم پریشان ہوتی ہوئی بولی۔۔۔
"ماما آپ کو تو پتہ ہی ہے ہندوستان کی سڑکوں پر کتنا ٹریفک ہوتا ہے۔۔۔
اور ویسے بھی آج تو بارش بھی ایسی تھی ۔۔۔۔
اللہ ہی بچائے ۔۔۔
بس اس لئے ٹائم لگ گیا۔۔۔۔۔۔
منہال اپنی ماما سے نظریں چراتا ہوا بولا ۔۔۔۔
"منہال!!!اب آپ اپنی ماما سے چھپاؤگے۔۔ ہاں ں.....
"کیا بات ہے بیٹا؟؟؟
"ماما کچھ بھی نہیں !!!
منہال اپنی چوری پکڑے جانے پر گڑ بڑا تا ہوا بولا۔۔
اور جیسے میں مان جاؤں گی۔۔
ہیں نہ ؟
بیٹا میں آپکی ماما ہوں آپکو آپسے زیادہ جانتی ہوں ۔۔۔سمجھے۔۔
اس لیے بیٹا آپکی ماما کا دل کہتا ہے ۔۔۔۔
نہیں کچھ تو بات ہے۔۔ ؟
جو آپ اپنی ماما سے چھپا رہے ہو ۔۔۔۔۔۔
عائشہ بیگم منہال کا بوسہ لیتی ہوئی بولی ۔۔۔
"اچّھا ا ا ا ا....
منہال آنکھوں میں شرارت ہوٹوں پر محبّت بھری مسکراہٹ سجھائے۔۔۔۔
اچّھا کو لمبا خیچتے ہوئے بولا۔۔۔
"میری ماما تو اپنے بیٹے کو بہت اچھے سے جانتی ہے۔۔
منہال...
آپ جانتے ہیں کہ میں آپکو آپ سے زیادہ جانتی ہوں اس لیے آپ اپنی ماما سے کُچّھ بھی نہیں چھپا سکتے سمجھے ۔۔۔۔۔۔
عائشہ بی مصنوعی غصے سے بولی۔۔۔
"ماما چھوڑیئے۔۔۔۔۔
ان باتوں کو مجھے کافی کی شدید طلب ہو رہی ہے۔۔۔۔
اور وہ بھی اپنی ماما کے ان پیارے پیارے ہاتھوں سے بنی ہوئی۔۔۔۔۔۔۔
منہال اپنی ماما کے ہاتھوں کا بوسہ لیتے ہوئے بات کو ٹالتے ہوئے بولا۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"منہال!!!
آپ بتا رہے ہیں۔۔۔
یا نہیں
نہیں تو میں آپ سے شدید قِسم والی ناراض ہو جاؤں گی۔۔۔۔۔۔
عائشہ بیگم منہال کو ایموشنل دھمکی دیتے ہوئے بولی۔۔۔۔
اچّھا !
بھئی یہ تو شدید قِسم کی دھمکی ہے ۔۔۔۔
لگتا ہے۔۔۔۔۔۔
اب تو بتانا ہی پڑےگا ۔۔۔۔۔
منہال عائشہ بیگم کو چھیڑتے ہووے بولا۔۔۔۔
بٹ ماما آپکو وعدہ کرنا پڑیگا۔۔۔۔۔
آپ پریشان بلکل بھی نہیں ہوگی۔۔۔۔۔
منہال ایکدم سنجیدہ ہوتے ہوئے اپنے ہاتھوں کی ہتھیلی کو عائشہ بیگم کے سامنے کرتے ہووے بولا۔۔۔۔۔۔
"ہاں ہاں بتاو !!!!
عائشہ بیگم ناراضگی کو ایک طرف کرتی ہوئی منہال کی طرف متوجہ ہوئی ۔۔۔
"ماما پہلے وعدہ ، منہال عائشہ بیگم کو ہتھیلی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بولا۔۔۔۔۔
اوکے وعدہ عائشہ بیگم وعدہ کرتے ہوئے بولی۔۔۔۔۔
ٹھیک ہیں!!
ایکچللی ماما جب میں گھر پر آ رہا تھا تو راستے میں ایکسیڈنٹ ہوتے ہوئے بچا بس اتنی سی بات ہے۔۔۔
منہال آپ کو یہ اتنی سے بات لگتی ہے۔۔۔
عائشہ بیگم حیرت اور پریشانی سے ملے جلے تاثرات لیے بولی۔۔
ماما آپنے وعدہ کیا ہے۔۔۔
آپکا وعدہ گڈھے میں گیا ۔۔۔۔۔
آپ یہ بتائے کہیں چوٹ تو نہیں لگی۔۔۔۔۔
عائشہ بیگم منہال کا چہرہ کو چھوں کر روتی ہوئی بولی ۔۔۔۔۔
منہال اپنی ماما کے آنسوں اپنے پوروں سے پوچھتے ہوئے بولا۔۔۔۔۔
ریلیکس ماما!!!!
آئی ایم فائن!!!!
دیکھیے میں آپکے سامنے اللہ کے کرم سے بلکل ٹھیک ہوں ۔۔۔۔
آپ بلکل چپ ہو جائے۔۔۔۔۔
عائشہ بیگم اپنے آنسوںپونچھتے ہوئی بولی۔۔۔
بیٹا!!!
اپنا خیال رکھا کریئے۔۔۔
آپکو اچّھا لگتا ہے۔۔۔۔
اپنی ماما کو پریشان دیکھتے ہوئے۔۔۔۔۔
ماما آپ کیسی باتیں کر رہی ہے۔۔۔۔؟
آپ تو میری جان ہے۔۔۔۔۔
منہال عائشہ بیگم کے ہاتھوں کو چومتے ہوئے بولا ۔۔۔۔
جھوٹ مت بولے۔۔۔
منہال اگر میں آپ کو مجھ سے یعنی اپنی ماما سے ذرا سی بھی محبّت ہوتی۔۔۔۔
تو آپ اپنا بہت خیال رکھتے۔۔۔۔۔۔
لیکن نہیں !!!
آپکو کہاں سمجھ آتا ہے۔۔۔۔۔
عائشہ بیگم شدید غصے میں منہال کو ڈانٹتے ہووے بولی۔۔۔۔
"اوکے اوکے میری پیاری ماما !!!
مجھے اب سمجھ آگیا۔۔۔۔
اب آگے سے اپنا بہت خیال رکھوں گا۔۔۔۔
منہال اپنے کان پکڑتے ہوئے بولا۔۔
بھئی مجھے اب کافی بھی ملےگی یا نہیں۔۔۔۔
سچ میں ماما سر میں بہت درد ہو رہا ہے ۔۔۔۔
منہال اپنے سر کو سہلاتے ہوئے بولا۔۔
ٹھیک ہے!!
" آپ جائے روم میں ابھی آپ کے لئے سر درد کی ٹیبلیٹ اور کافی لیکر آتی ہوں۔۔۔۔۔
عائشہ بیگم منہال کو روم میں جانے کے لیے بولتے ہوئے کچن کی طرف چلی گئی ۔۔۔۔
اوک ماما!!
منہال یہ بولتے ہووے اپنے روم کی طرف چل دیا۔۔۔۔
جب اُسنے اپنے روم کا دروازہ کھولا تو۔۔۔۔
اپنے روم کو ویسا ہی پایا جیسا وہ چھوڑکر کچھ دن پہلے گیا تھا ۔۔۔۔
اُسکا روم اتنا خوبصورت تھا کہ وہاں رہنے والے کی شخصیت کا اُسکے روم سے پتہ چلتا تھا۔۔۔۔۔
اتنا بڑا روم اینٹری گیٹ کے سامنے والا گلاس ونڈو رائٹ ہینڈ پر شاہی بیڈ ، بیڈ کے سامنے ایک بڑی سی LCD بیڈ کے دونوں سائڈ ڈراور جس پر لیمپ رکھے تھے۔۔۔۔۔
گلاس وال لیفٹ ہینڈ سائڈ رائیٹنگ ٹیبل جس پر ایک سائڈ بڑا نفیس لیمپ رکا تھا۔۔۔۔
اُسکا پورا روم ایسا لگتا تھا ۔۔۔
جیسے امریکین روم ہو۔۔۔۔
اُسکے روم سے سمندری کنارہ کالے سیاہ آسمان میں کھلتا ہوا چمکدار چاند ۔۔۔۔۔
اتنا خوبصورت لگتا تھا۔۔۔۔
کہ دیکھنے والے کی آنکھیں چندھیا جائے۔۔۔۔۔
یہ خوبصوت نظارہ دیکھنے کے بعد کوئی بھی اُسکے روم سے جانے کا خواہش مند نہ ہو۔۔۔۔۔۔
منہال ایک نظر اپنے روم میں دوڑا کر ڈریسنگ روم میں چلا گایا۔۔۔۔
کچھ دیر بعد وہ ڈریسنگ روم سے باہر نکلا اب اُسکے ہاتھ میں کُچّھ کپڑے تھے۔۔۔۔
شاید وہ شاور لینے کی تیاری کر رہا تھا۔۔۔۔۔
منہال ابھی باتھرُوم میں جانے کی تیاری کر رہا تھا۔۔
جب اُسکا موبائل پر میسیج رنگ ٹون بجی ۔۔۔۔
اُسنے اپنے موبائل کو نظر انداز کرتے ہوئے۔۔۔۔
شاور لینے کے لئے باتھرُوم میں چلا گیا ۔۔۔۔
وہ کچھ دیر بعد جب شاور لےکر نکلا تو سامنے اُسکی موم اُسکا انتظار کر رہی تھی۔۔۔۔۔
موم آپ !!
ہاں بیٹا !!!!
آپنے کافی کے لئے بولا تھانہ میں کافی اور پین کلر دونوں لیکر آئی ہوں۔۔۔
اب آپ جلدی سے یہ لے لیجئے۔۔۔۔۔
آپ کو سکون ملےگا۔۔۔۔۔
عائشہ بیگم منہال کی طرف کافی کی ٹرے بڑھاتے ہوئے بولی۔۔۔۔۔۔۔۔
اوک موم!!!
اب آپ بھی سو جائے بہت ٹائم ہو گیا ہے۔۔۔۔۔
منہال عائشہ بیگم کے ہاتھوں کو تھامتے ہوئے بولا۔۔۔۔
ٹھیک ہے بیٹا!!
منہال کی ماما گڈ نائٹ بولتی ہوئی روم سے چلی گئی۔۔
منہال نے اپنی ماما کے جانے کے بعد کافی اور ٹیبلیٹ لیکر بیڈ پر آکر لیٹ گیا۔۔۔۔۔
کچھ ہی دیر میں اس پر نیند کی دیوی مہربان ہو گئی۔۔۔۔۔۔
**************
*************
شاہزیب جب واپس آیا تو شہزین پوچھے بغیر نہیں رہ سکا ۔۔۔
"کیا ہوا؟حویلی میں سب ٹھیک تو ہے۔۔۔۔
"تو کیوں نہیں بول رہا ہے۔۔۔
شاہو!!
دادو ٹھیک تو ہے!!
امی نے کوئی ڈراما کریٹ تو نہیں کیا؟؟
شہزین ایک ہی سانس میں فکرمندی سے بولتا چلا گیا۔۔۔
شہزین سانس لینے کے لیے ایک پل کو ٹھہرا ۔۔۔۔
اور پھر بولا۔۔۔
تو مجھے ایسے کیوں دیکھ رہا ہے؟؟
بھائی!!
میں آپکو ایسے اس لیے دیکھ رہا ہوں کیونکہ مجھے حیرت ہو رہی ہے آپ پر۔۔۔
جو شہزین ملک شاہ مائشا نامی بلا کو دیکھ نہ بھی گوارہ نہیں کرتا۔۔۔
وہی شہزین ملک شاہ!!!!
آج اس ہی بلا کے لیے اتنا فکر مند کیسے ہو سکتا ہے؟؟
"شاہزیب شہزین کے نام پر زور دیکر،
شہزین کو حیرت سےدیکھتے ہوئے کہا۔۔
بھائی!!!
اس سے پہلے آپ پھر سے پوچھے۔۔
اسلئے آپکی اطلاع کے لیے۔۔۔
حویلی میں سب ٹھیک ہے !!
بس دادو ہاسپٹل آنے کی ضدکر رہی تھی ۔۔۔
شاہزیب نے شہزین کو بتایا ۔۔۔۔
ٹھیک ہے۔۔۔
اور میں اس بلا کے لیے پریشان نہیں ہوں۔۔۔
بس مجھے یہ چنتا کھائے جا رہی ہے۔۔۔
اگر اُسّے کچھ ہو گیا نہ۔۔
دادو ایک سیکنڈ بھی نہیں لگائے گی امی کو حویلی سے باہر نکلنے میں۔۔۔
اور بابا ۔۔
بابا جان تو ...
شہزین کو اس تو کے بعد سوچنے میں ہی جان لیوا سالگ رہا تھا۔۔۔۔۔۔
شہزین ایک لمبی سانس اپنے اندر اتارتے ہووے وہیں پر بیٹھ گیا۔۔۔
ورنہ میری بلا سے وہ مرے یہ جیے ۔۔۔
مجھے کوئی فرق نہیں پڑتا۔۔۔
شہزین شاہزیب کی غلط فہمی دور کرتے ہوئے بولا ۔۔۔
ریلیکس بھائی!!
میں جانتا ہوں۔۔۔
آپ کیا سوچ رہے ہیں؟؟؟
جو آپ سوچ رہے ہیں ایسا کچھ بھی نہیں ہوگا۔۔
بس آپ اچّھا سوچیے۔۔۔
انشاءاللہ سب ٹھیک ہی ہوگا۔۔۔۔
شاہزیب شہزین کو تسلّی دیتے ہوئے بولا۔۔۔
تبھی آپریشن روم کا دروازہ کھولا اور نرس بہار آئی شہزین جلدی سے نرس کے پاس گایا۔۔۔۔
سسٹر اب کیسی ہے وہ !
سر ابھی کچھ نہیں کہہ سکتے آپکو کُچّھ دیر انتظار کرنا ہوگا۔۔۔
نرس وہاں سے چلی گئی شہزین سکتے کی حالات میں وہی پر دھے نے سے کی انداز میں بیٹھ گیا۔۔۔۔ بھائی آپ فکر مت کریں اللہ سب ٹھیک کریگا۔۔
ہاں !!
شاہزیب تو ٹھیک بول رہا ہے۔۔۔
انشاءاللہ سب ٹھیک ہی ہوگا!!!
لیکن شاہزیب مجھے ڈر ہے اگر مایو کو کچھ ہو گیا تو بابا موم کو نہیں چھوڑ نے والے ۔۔۔۔
نہیں بھائی ایسا کُچّھ نہیں ہوگا !!
شہزین نے ایک لمبی سانس کھینچی اور ٹیک لگا کر بیٹھ گیا۔۔۔
**************
فجر کی اذان کی آواز سے اُسکی آنکھیں کھلی۔۔۔ سائڈ لیمپ جلاکر ٹائم دیکھا۔۔۔
پھرفریش ہونے چلا گایا۔۔
وہ وضو کر کے آیا۔۔۔۔
نماز ادا کی پھر gym چلا گیا۔۔۔
gym
سے وہ واپس گھر آ رہا تھا۔۔۔۔۔
تبھی اُسکا موبائل ویبریٹ ہوا ۔۔۔۔۔
اُسنے ڈرائیو کرتے ہووے دیش بورڈ پہ نگاہ ڈالی جہاں پر اُسکا موبائل رکھا تھا۔۔۔
اُسنے دیکھا اُسکی سیکرٹری یاسمین تھی۔۔
منہال نے جلدی سے کال پک کی۔۔۔۔
Yes!
"گڈ مارننگ سر...
منہال اپنی بھاری مغرور آواز میں بولا۔۔
مارننگ!!
سر آج آپکی نائٹ شوٹنگ ہے۔۔۔
وہائٹ؟؟؟
منہال دھاڑتے ہووے بولا۔۔
لیکن کیوں ؟؟
س سر ڈائریکٹر سر کی وائف ہسپتال میں ہے۔۔۔۔
انکا کل ایکسیڈینٹ ہو گیا تھا۔۔۔۔۔
اس لیے۔۔۔
oh.....
اچّھا!!!
"سر نائٹ میں ہے۔۔۔
یاسمین ابھی بول ہی رہی تھی ۔۔۔۔
جب منہال اُسکی بات کو نظر انداز کرتے ہوئے بولا۔۔۔
کون سے ہسپتال میں ہے؟؟؟؟
سر میں ابھی آپکو ہسپتال ایڈریس سینڈ کرتی ہوں ۔۔۔
اوکے !!
منہال نے یہ بول کر کال ڈسکنیکٹ کر دی ۔۔۔۔
کچھ دیر میں منہال کو ہسپٹل ایڈریس یاسمین نے سینڈ کر دیا تھا۔۔۔
منہال کو ہسپتال ایڈریس ملنے کے بعد اُسنے
گاڑی یاسمین کے بتائے ہوئے ہسپتال کی طرف موڑ دی۔۔۔۔۔۔
***************
شاہ حویلی میں آج بالکل سنّاٹا تھا ۔۔۔
وہ شاہ حویلی جس میں ہمیشہ سورج کی پہلی کرن پر حویلی کی دیواریں شور شرابے سے گونج اٹھی تھی۔۔۔
آج اسی حویلی میں سنّاٹا تھا۔۔۔۔۔
سب اپنے اپنے کمروں میں تھے۔۔۔۔۔
سب کے چہرے پر صرف ایک چنتا تھی ۔۔۔۔۔۔
وہ کہ مایو ٹھیک بھی ہو جائیگی یا نہیں؟؟
اور اگر؟؟
اس اگر کے بعد کسی کے بھی پاس کوئی جواب نہیں تھا ۔۔
اُن ہی میں سے دو شخص ایسے تھے۔۔۔۔۔۔۔
جو رات سے ہی مائشا کے لیے بار بار اپنے رب کے آگے سجدے کر رہے تھے۔۔۔
اُن میں سے ایک تو
شہزین اور شاہزیب کا چھوٹا بھائی عالیان ملک احسان تھا ۔۔۔۔
جو آج کل اپنی اسٹڈی کمپلیٹ کرنے کے لیے لندن گیا ہوا تھا۔۔۔۔۔
دوسرا اُسکی دادو جو ماضی کو یاد کرتے بار بار بارگاہ ع الٰہی کے سامنے اپنی جھولی پھیلائے بیٹھی تھی۔۔۔۔
******************
ماضی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
احسان شاہ کی شادی انکی چچا زاد رکسانہ سے ہوئی تھی۔۔
احسان شاہ اور ان کی زوجہ رکسانا بیگم کے چار بیٹے تھے۔۔۔۔۔
سلمان شاہ, حسن شاہ, ملک شاہ اور کمال شاہ۔۔۔۔۔۔
احسان شاہ کا بابا دادا کا جمایا ہوا بز نس تھا ۔۔۔۔۔ جو انہیں وراثت میں ملا تھا ۔۔۔۔
احسان شاہ چاہتے تھے کہ ان کے بیٹوں میں سے کوئی بز نس سے ہٹ کر بھی کچھ بنے ۔۔۔۔
اسلئے احسان شاہ نے اپنے سب سے بڑے بیٹے سلمان شاہ جب میٹرک میں تھے۔۔۔" تو احسان شاہ نے اپنے بیٹے سلمان پر ڈاکٹر بننے کے لئے دباؤ ڈالنا شروع کر دیا۔۔
لیکن سلمان شاہ کا انٹریسٹ بز نس میں تھا وہ چاہتے تھے کہ وہ ایک کامیاب بز نس مین بنے۔۔۔
جو کہ احسان شاہ کو ناگوار گزرتا۔۔۔
احسان شاہ اور سلمان شاہ ہر روز ان ہی ٹاپک پر لڑ پڑتے پھر کئی کئی دن تک بولنا بند رہتا۔۔۔
ایک دن تو حد ہی ہو گئی ۔۔۔۔
جب سلمان شاہ لسٹ پیپر دیکر گھر لوٹے۔۔۔
سامنے صوفے پر احسان شاہ بیٹھے ہووے دکھائی دیے۔۔۔
بابا اس وقت یہاں پر؟؟
سلمان شاہ خود سے بڑ بڑا تا ہوا۔۔۔
ڈرائنگ روم میں آیا۔۔۔
سلمان شاہ نے اپنے بابا کو حیرت سے دیکھتے ہوئے سلام کی۔۔۔
السلام وعلیکم بابا جان!!
بابا آپ آج آفس نہیں گےکیا؟؟؟
سلمان شاہ وہیں سےصوفے پر بیٹھتے ہووے بولے۔۔۔۔
وعلیکم السلام!!
احسان شاہ سلمان کی سلام کا جواب اسے دیکھتے ہووے دیا۔۔۔
کیوں؟؟؟
تمہیں اچّھا نہیں لگا مجھے یہاں دیکھ کر؟؟؟
احسان شاہ نے تلخی سے پوچھا ۔۔۔۔
نہیں بابا میرا مطلب تھا۔۔۔
سلمان شا ابھی بول ہی رہے تھے۔۔۔۔۔
جب احسان شاہ سلمان شاہ کی بات بیچ میں ہی کاٹتے ہووے بولے۔۔۔
تمہارا جو بھی مطلب تھا ۔۔
اُسّے چھوڑوں ۔۔۔۔
تم مجھے یہ بتاؤ آج تمہارا لاسٹ ایگزام تھا نہ۔۔۔؟
ہاں بابا!!!
لیکن آپ کیوں پوچھ رہے ہے؟
سلمان نے اپنے بابا سے پوچھا۔۔۔
کیوں میں نہیں پوچھ سکتا؟؟
احسان شاہ سلمان کی بولنے سے غصے سے بھڑک ہی تو اٹھے۔۔۔۔
نہیں بابا !!!
سلمان شاہ نے اپنی دلائل دینے کے لیے لب ہی کھولے تھے ۔۔۔
جب احسان شاہ بولے کیا سوچا ہے آگے کا؟؟؟
سلمان شاہ جان کر بھی انجان بنتے ہوئے بولے کس بارے میں بابا؟؟
تم اتنے بھی نادان نہیں ہو۔۔۔۔
ماشاللہ سے !!
پندرہ کے ہو جاؤگے۔۔۔۔۔
جو تم میری بات کو نہیں سمجھ سکتے ۔۔۔
میں جانتا ہوں تم جان کر بھی انجان بن رہے ہو۔۔
اسلئے شرافت سے بتاؤ۔۔۔
بابا میں آپکو پہلے بھی بتا چکا ہوں اور اب بھی بتا رہا ہوں مجھے نہیں بننا ڈاکٹر۔۔۔۔
میں بز نس میں انٹریسٹڈ ہوں ۔۔۔
میں اپنا خود کا الگ سے بز نس بناؤں گا۔۔۔۔۔
جب میں اپنی اسٹڈی کمپلیٹ کرکے ڈگری حاصل کر لوں گا۔۔۔
اور میری اسٹڈی کمپلیٹ ہونے میں ابھی بہت سال باقی ہے۔۔۔
ویسے بھی میں نے ابھی صرف میٹرک کے ہی تو پیپر دیے ہے۔۔۔
پھر اتنی جلدی کس بات کی۔۔۔؟
بابا!!!
"آپ بار بار ایک ہی ٹاپک کو کیوں لیکر بیٹھ جاتے ہیں۔۔۔
سلمان شاہ دانت کیچکچاتے ہووے بولا۔۔۔۔
تو یہ تمہارا آخری فیصلہ ہے۔۔
احسان شاہ نے ایک بار پھر غصّے میں پوچھا۔۔۔
جی بابا!
سلمان شاہ نے گردن کو جھکاتے ہوئے جواب دیا۔۔۔
ٹھیک ہے ۔۔۔
اب جب تم اپنا فیصلہ سنا ہی چکے ہو تو میرا بھی فیصلہ سُن لو تم ۔۔۔۔
سلمان احسان شاہ ۔۔۔۔
احسان شاہ اُسکے نام پر زور دیتے ہوئے بولے۔۔۔۔
میرا فیصلہ یہ ہے ۔۔۔۔۔۔
احسان شاہ نے بولتے ہووے ایک بار اپنے جان سے پیارے بیٹے کی طرف دیکھا۔۔۔۔۔
اور۔۔۔۔
پھر کچھ سوچتے ہوئے حویلی کے سب سے وفادار نوکر سے بولے ۔۔۔۔۔
جاؤ فیصلہ سے پہلے پوری حویلی کے مکینوں کو یہاں پر بولا کر لاؤ۔۔۔۔۔
جی صاحب نوکر جلدی سے بول کر وہاں سے چلا گیا۔۔۔
اس بیچ دونوں باپ بیٹوں کے درمیان اگر کُچّھ موجود تھا تو وہ تھی خاموشی ۔۔۔۔۔
ایک ایسی خاموشی جو طوفان آنے سے پہلے ہوتی ہے۔۔۔۔۔
کچھ ہی دیر میں سب لوگ ڈرائنگ روم میں موجود تھے۔۔۔۔
رکسانا بیگم کو دونوں باپ بیٹوں کو دیکھتے ہی سارا ماجرا سمجھ انے لگا تھا۔۔۔
احسان صاحب۔۔۔
آپنے یوں ایک ساتھ گھر کے مکینوں کو اکھٹا کیوں کیا ہے۔۔۔۔
رکسانا بیگم نے سمجھ آنے کے بعد بھی احسان شاہ سے فکرمندی سے پوچھا۔۔۔۔
رکسانا بیگم۔۔۔
احسان شاہ بولے۔۔۔
آج ہم نے ایک فیصلہ کیا ہے۔۔۔۔
اُمید ہے ۔۔۔
آپ ہمارے فیصلے کے خلاف نہیں جائیگی۔۔۔
ک کون سا فیصلہ۔۔؟اہ احسان صاحب۔۔۔
رکسانا بیگم حکلاتے ہووے بولی۔۔۔
رکسانا بیگم۔۔۔
آج ہم یعنی احسان سکندر شاہ یہ فیصلہ سناتے ہیں۔۔۔۔
آج سے ہمارا اور ہماری فیملی کے کیسی بھی شخص سے سلمان احسان شاہ کا کوئی رشتہ نہیں ہے ۔۔۔
حویلی میں ایک بار پھر فیصلہ سنانے کے بعد خاموشی چھا گئی۔۔۔
بابا!!
سلمان شاہ سکتے سی کی حالت میں بولے۔۔۔
کیا ؟؟
رکسانا بیگم کو صورتِ حا کو کسمجھ آتے ہی چلاتے ہووے بولی۔۔۔
احسان شاہ آپ ایسا کیسے کر سکتے ہیں؟
آپ کو پتہ بھی ہیں۔۔۔
آپ کیا بول رہے ہیں؟؟
آپ مجھ سے میری جان کیسے مانگ سکتے ہے۔۔۔؟
نہیں !!
میں آپکے فیصلے کو نہیں مان سکتی۔۔۔
میں اپنے بیٹے کو خود سے دور نہیں کر سکتی۔۔۔
سنہ اپنے۔۔۔
رکسانا بیگم روتی ہوئی سلمان شاہ کے نزدیک جاتے ہوئے بولی۔۔۔۔۔۔
رکسانا بیگم م م م!!!!
جہاں پر ہے وہیں پر رک جائے۔۔۔۔
ورنہ آپ جانتی ہے۔۔۔
جو آج ہوگا اُسکی زمّےدار خود آپ ہوگی۔۔۔۔
احسان شاہ شعلے برساتی آنکھوں سے دیکھتے ہووے غصے سے دھاڑے۔۔۔۔
رکسانا بیگم جو سلمان شاہ (اپنے بیٹے)کے پاس جا رہی تھی وہ وہیں رک گئی۔۔۔۔
اور روتے ہوئے بولی احسان صاحب آپ اچّھا نہیں کر رہے ہیں۔۔۔۔۔۔
اپنے بلکل بھی اچّھا نہیں کیا ۔۔۔۔
ایک ماں کو اُسکے بیٹے سے دور کرکے۔۔۔
میں کیسے جیوں گی سلمان کے بنہ۔۔۔
سلمان اپنے بابا کے سنائے ہووے فیصلے پر حیران تھا
کہ جو باپ اپنے بیٹے پر کھروچ بھی برداشت نہیں کر پاتا تھا۔۔۔۔۔
وہ آج اپنے جان سے پیارے بیٹے سے رستہ توڑنے کی بات کر رہا ہے۔۔۔
سلمان اپنی جان سے پیاری ماں کو روتے ہووے دیکھ کر وہ بھی خون کے آنسو روتے ہووے بولا ۔۔۔
بابا پلیز!!!
ایسا مت بولئے۔۔
آپ تو اپنے بیٹے سے بہت محبّت کرتے ہیں۔۔۔
پھر آپ ایسا کیسے کہہ سکتے ہیں۔۔۔
بابا !!
اگر آپ سب نے مُجھسے رستہ توڑ دیا تو۔۔۔
م میں کیسے رہوں گا آپ سب کے بنا۔۔۔۔
بابا!!
ایک بار پھر سے سوچ لیجئے نہ۔۔۔۔؟
سلمان شاہ اپنے بابا کے پاس جاتے ہوئے بولا۔۔۔۔
بابا !!
کیا آپ بھی اپنے بیٹے کے بنہ رہ لیں گے۔۔۔۔۔۔۔
سلمان اپنے بابا کا ہاتھ پکڑنے ہی والا تھا۔۔
جب احسان شاہ بولے ۔۔۔
بس!!!
مجھے ہاتھ بھی مت لگانا ۔۔۔۔
اب ہمارا آپ سے کوئی رستہ نہیں ہے۔۔۔۔۔
اور یہ دلائل اب مت دو ۔۔۔۔۔
یہ تو آپکو فیصلہ سنانے سے پہلے سوچنا چاہیے تھا۔۔۔۔
احسان شاہ سلمان سے چہرا موڑتے ہووے بولے۔۔۔
احسان صاحب یوں پتھّر دل مت بنیے۔۔۔۔
رکسانا بیگم روتی ہوئی بولی۔۔۔۔
رکسانا بیگم!!!
مجھے سمجھانے سے بہتر ہے ۔۔۔۔۔
آپ اپنے اس نالائق بیٹے سے بولئے کی یہ اپنا ٹھکانہ اور کہیں ڈھونڈے۔۔۔
اب یہ نالائق میں اس حویلی میں نہ دیکھوں۔۔۔۔
اور ہاں اب مجھے کوئی بھی ڈسٹرب نہ کرے۔۔۔۔
احسان صاحب یہ بول کر اپنے روم میں چلے گئے۔۔۔۔۔۔
سلمان جو اپنے بابا کے فیصلے پر رو رہا تھا۔۔۔۔۔
انکی آخری بات پر گردن اٹھاکر اپنے بابا کی طرف دیکھا اور پھر اپنی ماں کی طرف۔۔۔۔۔
ماما!!!
میں کہا جاؤنگا ؟
ا آپ سمجھائے نہ بابا کو ۔۔۔
ماما!!
کیا خواب دیکھنا جرم ہے؟؟
اور بابا بھی تو ایک بز نس مین ہے ۔۔۔
تو وہ مجھے کیوں نہیں بننے دیتے۔۔۔۔۔
ماما سمجھائے نہ بابا کو۔۔۔۔
سلمان نے روتے ہووے اپنی ماں کے ہاتھ کو پکڑا۔۔۔
بیٹا میں کیسے سمجھاؤں تمہارے بابا کو۔۔۔۔
اب میں بھی کچھ نہیں کر سکتی ۔۔۔۔
تمہارے بابا نے دھمکی ہی ایسی دی ہے ۔۔۔۔۔
ایسا کرو تم کچھ دن کے لیے اپنے کسی دوست کے پاس چلے جاؤ ۔۔۔۔
میں تمہارے بابا کو سمجھانے کی کوشش کرتی ہوں۔۔۔
نہیں ماما ابھی سمجھائے ۔۔۔
اگر میں نے اس حویلی کی دہلیز پار کر دی نہ پھر میں کبھی لوٹ کر نہیں آؤں گا۔۔۔۔
کیسی باتیں کر رہے ہو سلمان۔۔۔؟
کوئی ایسے بھی بولتا ہے۔۔۔
رکسانا بیگم روتی ہوئی بولی۔۔۔
اور کیسے بولوں ماما ۔۔۔؟
آپ ہی بتائیے۔۔۔۔۔
آپ۔۔۔
اب بابا سے بات نہیں کر سکتی۔۔۔۔
اور میں یہاں سے جانے کے بعد پھر کبھی لوٹ کر نہیں آ سکتا۔۔۔
اس لیے آپ میرے لیے بابا سے اپنا رستہ خراب مت کیجئے اور ویسے بھی بابا اور آپ سب نے مُجھ سے رستہ تو توڑ ہی دیا ہے۔۔۔
اور میں پاگل پھر بھی آپ سے گزارش کر رہا ہوں۔۔۔
بس آپ اور آپ سے جڑے ہر رشتے خوش رہے۔۔۔۔
ماما !!!
میں جا رہا ہوں۔۔۔
ہمیشہ ہمیشہ کے لیے۔۔۔۔۔
سلمان شاہ روتے ہوئے اپنے روم میں چلا گیا۔۔۔۔۔
اور پیچھے رکسانا بیگم کی نظروں نے سلمان کا بہت دور تک پیچھا کیا۔۔۔۔۔۔
*********************
حال۔۔۔۔۔
دادو و و و۔۔۔۔۔۔
رکسانا بیگم اپنے نام کی پکار سنکر ماضی سے باہر آئی۔۔۔
دادو کو اپنے روم سے باہر ایک بار پھر اپنے نام کی پکار سنائی دی ۔۔۔۔
دادو و و و۔۔۔
ڈھڑڑڑ.......
ایسا لگ رہا تھا جیسے کوئی دروازے کو زور زور سے پیٹتے ہوئے اُنہیں ہی پکار رہا تھا۔۔۔۔
کون ہے ۔۔۔۔؟
دادو جائے نماز پر بیٹھی ہوئی وہیں سے چلّائی۔۔۔۔
دادو میں نور!!!
باہر حسن شاہ کی ایک لوتی بیٹی نور تھی۔۔۔۔
آ رہی ہوں ۔۔۔
دادو جائے نماز کی تہہ کرتی ہوئی بولی۔۔۔
دادو نے جائے نماز کی تہہ کر کے وہیں صوفے پر رکھ دی اور پھر دروازہ کھولا۔۔۔۔
دروازے کے کھولتے ہی نور جھپاک سے دادو کے گلے لگتی ہوئی بولی۔۔۔
السلام وعلیکم دادو!!!
دادو اُسکے ماتھے پر بوسا دیتی ہوئی بولی ۔۔۔۔
وعلیکم السلام!!!
آؤ بچہ یہیں پر کھڑی رھوگی کیا ۔۔۔۔
ہاں ں۔۔
دادو چلئے۔۔۔
نور دادو کو پکڑتی ہوئی بیڈ تک لائی ۔۔۔
اور سب کیسے ہے؟؟
دادو اللہ کے شکر سے۔۔۔
سب بلکل تھیک ہے!!!
دادو مائشا کہا ہے؟؟؟
نور نے چاروں طرف نظر دوڑائی پھر دادو سے پوچھا۔۔۔
مائشا کے ذکر پر دادو زارو قطار رونے لگی ۔۔۔۔
دادو کو ایسے روتے ہووے دیکھ کر نور بھوکھلاتی ہوئی بولی۔۔۔
دادو آپ ایسے کیوں رو رہی ہیں؟؟
سب ٹھیک تو ہے نہ۔۔۔؟
دادو اللہ کے واسطے کُچّھ تو بولئے۔۔۔۔
اچّھا پہلے آپ پانی پی لے۔۔۔۔۔
نور پانی کا گلاس سائڈ سے اٹھا کر دادو کے لبوں پر لگاتے ہوئے بولی ۔۔۔۔
دادو نے تھوڑا سا پانی پیا اور گلاس سائڈ پر رکھتے ہوئے بولی۔۔
نور!!!
و وہ مائشا کل رات سے ہسپتال میں ہے۔۔۔
کیا؟؟
نور چلاتے ہوئے بولی۔۔۔۔
لیکن کیوں؟؟؟؟
دادو نے نور کے پوچھنے پر ا سے ب تک کی رات ہونے والے حادثے کو نور کے گوش گزار کر دی ۔۔۔۔۔
نور کو مائشا کی چوٹ کے بارے میں جان کر آنکھوں سے آنسو بہنے لگے ۔۔۔۔
نور اپنے آپ کو سنبھالتی ہوئی بولی۔۔۔۔
دادو کون ہے مائشا کے پاس اب ہسپتال میں؟؟
نور نے آنسوؤں کا گولا اپنے اندر اتارتے ہووے دادو سے پوچھا۔۔۔۔۔
شہزین اور شاہزیب۔۔۔
دادو نے اپنے آنسو پوچھتے ہوئے نور کو بتایا۔۔۔۔
اچھا!!!
دادو آپ فکر مت کریں اللہ سب ٹھیک کر دیگا۔۔
انشاءاللہ مائشا جلد ہی بلکل تھیک ہو جائیگی۔۔۔۔
نور دل سے دعا کرتی ہوئی بولی۔۔۔۔
دادو حویلی سے اُن دونوں کے علاوہ کوئی نہیں گیا، مائشا کی عیادت کو؟؟؟
نور نے ایک بار پھر دادو سے سوال کیا۔۔۔۔
نہیں!!!
دادو نے ایک لفظی جواب دیا۔۔۔
اچّھا دادو آپ ریسٹ کریئے۔۔۔
میں آپ کے پیر دبا دیتی ہوں۔۔۔۔
دادو بیڈ سے ٹیک لگا کر بیٹھ گئی۔۔
نور دادو کے پیر دبانے لگی۔۔۔۔
ابھی کچھ ہی پل گزرے تھے۔۔۔۔
جب نور بولی دادو آپ کو ہسپتال کا ایڈریس وغیرہ پتہ ہے کیا؟؟؟
نہیں !!!
دادو کچھ سوچتے ہوئے بولی نور تم ایسا کرو شہزین کو فون ملاؤ۔۔۔
لیکن دادو میرے پاس شہزین کا نمبر نہیں ہے۔۔۔
بلکہ اس حویلی کے کسی بھی شخص کا نمبر ہی نہیں ہے میرے پاس۔۔۔۔۔۔
بس عالیان کے علاوہ۔۔۔۔
نور مایوس ہوکر بولی
اچّھا!!!
تو پھر تم ایسا کرو عالیان کو ہی فون ملاؤ۔۔۔۔
میں اُسکی بتا دوں مائشا کے بارے میں ۔۔۔
یہاں تو کوئی ملا کر ہی نہیں دیتا فون۔۔۔۔
دادو نے نور کو کہا ۔۔
اوک دادو میں ابھی ملاتی ہوں ۔۔
نور نے ادھر اُدھر نظر دوڑائی لیکن اُسّے کہیں پر بھی اپنا فون نہیں دکھائی دیا۔۔۔۔
دادو آپ ریسٹ کریئے۔۔۔۔
میں ابھی ڈرائنگ روم سے اپنا فون لے کر آتی ہوں۔۔۔
نور دادو کو ریسٹ کرنے کر بول کر روم سے باہر چلی گئی۔۔۔۔۔
جب تک نور اپنا فون لے کر آئی ۔۔۔۔
دادو بیڈ پر لیٹ گئی تھی۔۔۔
دادو یہ لیجئے۔۔۔
مل گئی کال
نور نے دادو کے ہاتھ میں تھماتے ہوئے بولی۔۔۔
دادو نے فون لے کر کان سے لگایا۔۔۔۔
ہیلو!!!
دادو روتی ہوئی بولی ۔۔۔
دوسری طرف سے سلام کی گئی۔۔۔
وعلیکم السلام بیٹا!!
دادو نے روتے ہوئے کچھ دیر میں عالیان کی سلام کا جواب دیا۔۔۔
عالیان !!
و وہ مائشا دادو نے روتے ہوئے ٹھہر ٹھہر کر عالیان کو ساری بات بتا دی۔۔۔۔
دوسری طرف سے کیا پوچھا گیا۔۔۔
کہ دادو بولی چوبیس گھنٹے ہو گئے۔۔۔
دوسری طرف سے کچھ پوچھا گیا تھا۔۔۔
جس پر دادو بولی۔۔۔
بیٹا!!!
یہاں پر کوئی بھی نہیں تھا؟
ملک , شہزین شازیب تو ہسپتال میں ہے۔۔۔
دوسری طرف سے نہ جانے کیا بول کر فون کاٹ دی گئی ۔۔۔۔
************************************
انشاءاللہ اگلے قسط آپکو جلد ہی ملےگی۔۔۔۔
دوسری قسط پڑھنے کے لیے
قارئین سے گزارش ہے کہ ہر ایپی کو پڑھ کر ہے ایک ایپی پر اپنے ریویو دیا کریں....
آپکی مصنف ملیحہ چودھری
My Instagram I'd
@m_choudhary.7
Milind salve
23-Mar-2022 11:58 PM
Good
Reply
Anjana
20-Mar-2022 11:12 PM
Very interesting
Reply
Arshi khan
20-Mar-2022 08:24 PM
Bahut khoob miss Choudhry
Reply